Monday -- 16 Shawwal 1425 -- 08 Agrahayana 1926 -- 29 November 2004


تنہائی
پھر کوئی آیا دل زار! نہیں کوئی نہیں
راہ رو ہوگا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کہ ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دئے قدموں کے چراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا!

فیض احمد فیض

0 Comments:

Post a Comment

<< Home

|